پپارلیمانی کمیٹیاں مقننہ کا اہم جز تصور کی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اکثر ’چھوٹی مقننہ‘ قراردیا جاتا ہے ۔ایک متحرک کمیٹی نظام سے ہی ایگزیکٹو کا مقننہ تک اور مقننہ کا عوام تک حقیقی احتساب ممکن ہوسکتا ہے ۔
پارلیمنٹری کمیٹیوں کے کردار کو مستحکم کرنے کا مطلب مقننہ کو مستحکم کرنا ہے ۔ اسمبلی اپنا اکثر بزنس کمیٹیوں کے ذریعے ہی سرانجام دیتی ہے ۔ یہ کمیٹیاں بزنس کی خاص آئٹمز جن میں ماہرانہ یا تفصیلی غوروخوض درکار ہوتا ہے نمٹانے کے لئے مقرر کی جاتی ہیں۔پارلیمنٹری کمیٹیوں کا نظام خاص طور پر ان معاملات کےلئے بہتر تصور کیاجاتا ہےجو خاص اور ٹیکنیکل نوعیت کے ہوں ، جو بذات خود پورے ایوان کی بجائے کم اراکین کی جانب سے تفصیلاً زیر بحث لائے جائیں ۔ مزید برآں، یہ نظام اہم معاملات کی بحث کے لئے ایوان کا وقت بچاتا ہے اور پارلیمنٹ کو تفصیل میں جانے سے اور اس کے ذریعے پالیسی معاملات نیز وضع کردہ اصولوں پر گرفت ڈھیلی پڑنے سے بچاتا ہے ۔
قواعد انضباط کار صوبائی اسمبلی پنجاب 1997 کا باب 17 سٹینڈنگ اور دیگر کمیٹیوں کی ساخت ، تشکیل اور فرائض کے متعلق ہے ۔
موجودہ وقت میں پنجاب اسمبلی کی 49 کمیٹیاں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
- 47 سٹینڈنگ کمیٹیاں (سٹینڈنگ کمیٹی ایک ایسی کمیٹی ہے جو اسمبلی کی مدت تک کے لئے تشکیل دی جاتی ہے )انہیں مزید دو کیٹیگریوں میں تقسیم کیا جا تا ہے جن کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
- حکومتی محکموں کے لئے 40 سٹینڈنگ کمیٹیاں؛اور
- 7دیگر سٹینڈنگ کمیٹیاں(پی اے سی۔i، پی اے سی۔ii، پی اے سی۔iii ، استحقاقات، لائبریری ، گورنمنٹ ایشورنس، فنانس)
- 2 دیگر کمیٹیاں(بزنس ایڈوائزری کمیٹی اور ہاؤس کمیٹی)
حکومتی محکموں کے لئے تمام 40 سٹینڈنگ کمیٹیاں اور سات میں سے چھ دیگر سٹینڈنگ کمیٹیاں (لائبریری کمیٹی کے علاوہ)اسمبلی کی جانب سے منتخب کی جاتی ہیں۔ جبکہ سٹینڈنگ کمیٹیوں کے مابین لائبریری کمیٹی اور دونوں دیگر کمیٹیاں (بزنس ایڈوائزری کمیٹی اور ہاؤس کمیٹی)اسمبلی کی جانب سے منتخب نہیں کی جاتی ہیں۔لائبریری کمیٹی سپیکر مع ڈپٹی سپیکر جو کہ اس کے چیئرمین ہیں کی جانب سے نامزد کی جاتی ہے۔
جناب سپیکروقتاً فوقتاً بزنس ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دے سکتا ہے اور ہاؤس کمیٹی سالانہ بنیاد پرجناب سپیکر کی طرف سے تشکیل دی جاتی ہے۔
حکومتی محکموں کے لئے بنائی گئی ہرسٹینڈنگ کمیٹی گیارہ اراکین پر مشتمل ہوتی ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں اور استحقاق کمیٹی سترہ اراکین، لائبریری اور گورنمنٹ ایشورنس کمیٹی دس اراکین اور فنانس کمیٹی نو اراکین پر مشتمل ہوتیں ہے
متعلقہ وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری کمیٹی کے اراکین بلحاظ عہدہ ہوتے ہیں۔ اسمبلی ،کمیٹی کے اراکین کا انتخاب قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے کرتی ہے۔ اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں اسمبلی ہر کمیٹی کے اراکین کا انتخاب متناسب نمائندگی کے اصول پر کرے گی۔ کمیٹی اپنے اراکین میں سے اپنے چیئرمین کا انتخاب کرتی ہے۔ کمیٹی اپنے محولہ معاملہ سے پیدا ہونے والے مخصوص فرائض کی انجام دہی کی غرض سے سپیکر کی اجازت سے ذیلی کمیٹی مقرر کر سکتی ہے۔
کمیٹی کے اجلاس کا کورم چار منتخب رکن ہوں گے، تاہم کسی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا استحقاقات کمیٹی کے اجلاس کا کورم چھ منتخب رکن ہوں گے۔ مندرجہ بالا سٹینڈنگ کمیٹیوں کے علاوہ اسمبلی کی بعض دیگر کمیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔
مخصوص مقاصد کے لئے کمیٹیاں:
سپیشل کمیٹی:
اسمبلی ، تحریک کے ذریعے ایک سپیشل کمیٹی مقرر کرسکتی ہے جس کی تشکیل اور فرائض اس تحریک میں درج ہوں گے ۔کمیٹی زیادہ سے زیادہ بارہ اراکین پر مشتمل ہو گی، اگر اس تحریک میں سپیکر یا وزیر کو کمیٹی کے رکن کے طور پر نامزد کیا گیا ہو تو انہیں ان بارہ اراکین میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
سیلیکٹ کمیٹی:
مسودہ قانون پر سٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش ہو جانے کے بعد اور مسودہ قانون پر غوروخوض کے لئے مقرر کردہ دن پر کوئی رکن یہ تحریک پیش کر سکتا ہے کہ مسودہ قانون سیلیکٹ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ مسودہ قانون سے متعلق محکمے کا متعلقہ وزیر مسودہ قانون سے متعلق کمیٹی کا چیئرمین، رکن متعلقہ اور وزیر قانون و پارلیمانی امور سیلیکٹ کمیٹی میں شامل کئے جائیں گے۔ کمیٹی کے دیگر اراکین کو اسمبلی اپنے اراکین میں سے اس وقت منتخب کرے گی جب مسودہ قانون کو سیلیکٹ کمیٹی کے سپرد کرنے کی تحریک منظور ہو جائے ۔ مسودہ قانون سے متعلق کمیٹی کا چیئرمین سیلیکٹ کمیٹی کا چیئرمین ہوگا۔